تھے ہی قَریبِ مَرگ ہَم آپ نے وار کیوں کِیا

تَذکرہِ خُلوص و پاسِ قَول و قرار کیوں کِیا
ہَم نے خزاں میں جانے یہ ذِکرِ بَہار کیوں کِیا
روزِ اَزَل سے آج تَک، با خَبَر اَور بے نِیاز
حُسن کو دِل نے عِشق کا پَروَردگار کیوں کِیا
رَمَقِ زِندگی حضُور! پہلے ہی تھی بَرائے نام
تھے ہی قَریبِ مَرگ ہَم آپ نے وار کیوں کِیا
ضامن جعفری

تبصرہ کریں