اَزَل سے سب مکرّر ہو رَہا ہے

نہ جانے کہہ دِیا ہے عشق نے کیا
کہ حُسن آپے سے باہر ہو رَہا ہے
حواس و ہوش سے کہہ دو کہ جائیں
حسابِ دل برابر ہو رَہا ہے
اَبَد ممکن ہے لائے کچھ تغیّر
اَزَل سے سب مکرّر ہو رَہا ہے
ضامن جعفری

تبصرہ کریں