یہ ہمسفر مرے کتنے گریز پا نکلے

بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے
یہ ہمسفر مرے کتنے گریز پا نکلے
چلے تھے اَور کسی راستے کی دُھن میں مگر
ہم اتفاق سے تیری گلی میں آ نکلے
غمِ فراق میں کچھ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے
نصیحتیں ہمیں کرتے ہیں ترکِ الفت کی
یہ خیرخواہ ہمارے کدھر سے آ نکلے
یہ خامشی تو رگ و پے میں رچ گئی ناصر
وہ نالہ کر کہ دلِ سنگ سے صدا نکلے
ناصر کاظمی

تبصرہ کریں