پھر زور سے قہقہہ لگاؤ

دَم گھٹنے لگا ہے وضعِ غم سے
پھر زور سے قہقہہ لگاؤ
پھر دل کی بساط اُلٹ نہ جائے
اُمید کی چال میں نہ آؤ
میں درد کے دن گزار لوں گا
تم جشنِ شبِ طرب مناؤ
کچھ سہل نہیں ہمارا ملنا
تابِ غمِ ہجر ہے تو آؤ
ناصر کاظمی

تبصرہ کریں