دیکھیے شامِ غم کہاں لے جائے

تارے گنوائے یا سحر دکھلائے
دیکھیے شامِ غم کہاں لے جائے
صبحِ نورس کا راگ سنتے ہی
شبِ گل کے چراغ مرجھائے
صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں
خانہ برباد دن ڈھلے آئے
کیوں نہ اُس کم نما کو چاند کہوں
چاند کو دیکھ کر جو یاد آئے
ناصر کاظمی

تبصرہ کریں