کچھ اِس لیے بھی نِکلتا نہیں ہوں میں گھر سے
کہیں ہُما نہ گزر جائے میرے سَر پَر سے
وہ جس کے پاؤں تلے پائمال تھے کہسار
گِرا تو حیف اُلجھ کر ذرا سے پتھر سے
گَلے کا ہار ہیں جو آج کل رسن ہوں گے
ہمارے زخم ہی اچھے زر و جواہر سے
یہ اور بات کہ ظلمت کدے میں سب کچھ ہے
میں بے نیاز نہیں مہر و ماہ و اختر سے
کرم چلا تو ہے باصِرؔ کی اشک شوئی کو
خبر نہیں ہے کہ پانی گزر چکا سَر سے
باصر کاظمی