کام تھوڑا تھا گفتگو تھی بہت

دل میں ہر چند آرزو تھی بہت
کام تھوڑا تھا گفتگو تھی بہت
سنگِ منزل یہ چھیڑتا ہے مجھے
آ تجھے میری جستجو تھی بہت
اے ہوس دیکھ داغ داغ جگر
تو بھی مشتاقِ رنگ و بُو تھی بہت
بڑھ گئی اُن سے مل کے تنہائی
روح جویائے ہم سبو تھی بہت
اک تِری ہی نگاہ میں نہ جچے
شہر میں ورنہ آبرو تھی بہت
باصر کاظمی

تبصرہ کریں