ہر چند میرے حال سے وہ بے خبر نہیں
لیکن وہ بے کلی جو اِدھر ہے اُدھر نہیں
آوازِ رفتگاں مجھے لاتی ہے اِس طرف
یہ راستہ اگرچہِمری رہگذر نہیں
چمکی تھی ایک برق سی پھولوں کے آس پاس
پھر کیا ہُوا چمن میں مجھے کچھ خبر نہیں
کچھ اور ہو نہ ہو چلو اپنا ہی دل جلے
اتنا بھی اپنی آہ میں لیکن اثر نہیں
آتی نہیں ہے اِن سے شناسائی کی مہک
یہ میرے اپنے شہر کے دیوار و در نہیں
باصر کاظمی