جینے کا اپنے پاس بہانہ یہی تو ہے

کیا زندگی ہے اپنی مگر زندگی تو ہے
جینے کا اپنے پاس بہانہ یہی تو ہے
ہم بھی سکوں سے سوئیں گے آئے گی وہ بھی رات
بھر جائے گا کبھی نہ کبھی زخم ہی تو ہے
ہے جس کا انتظار وہ ممکن ہے آ ہی جائے
تھوڑی سی دیر کے لیے بارش رُکی تو ہے
باصرِؔ کہاں سے لائیں اب اُس کو ترے لیے
یہ بات ہی بہت ہے کہ محفل جمی تو ہے
باصر کاظمی

تبصرہ کریں