عہد اُس نے کیا نہ آنے کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 145
اور عنواں ہو کیا فسانے کا
عہد اُس نے کیا نہ آنے کا
ہم نے اُس حُسن کو مقام دیا
ارضِ جاں کے مدھر ترانے کا
کچھ ہِمیں تاک حفظِ جاں میں نہ تھے
علم اُس کو بھی تھا نشانے کا
دھار تلوار کی نگاہ میں ہے
شور سر پر ہے تازیانے کا
وقت خود ہی سُجھانے لگتا ہے
فرق ماجدؔ نئے پرانے کا
ماجد صدیقی

تبصرہ کریں