احمد فراز ۔ غزل نمبر 106
نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
پھر آج دکھ بھی زیادہ ہے کیا کیا جائے
ہمیں بھی عرضِ تمنا کا ڈھب نہیں آتا
مزاج یار بھی سادہ ہے کیا کیا جائے
کچھ اپنے دوست بھی ترکش بدوش پھرتے ہیں
کچھ اپنا دل بھی کشادہ ہے کیا کیا جائے
وہ مہرباں ہے مگر دل کی حرص بھی کم ہو
طلب، کرم سے زیادہ ہے کیا کیا جائے
نہ اس سے ترکِ تعلق کی بات کر پائیں
نہ ہمدمی کا ارادہ ہے کیا کیا جائے
سلوکِ یار سے دل ڈوبنے لگا ہے فراز
مگر یہ محفلِ اعداء ہے کیا کیا جائے
احمد فراز