احمد فراز ۔ غزل نمبر 39
ہوئے جاتے ہیں کیوں غم خوار قاتل
نہ تھے اتنے بھی دل آزار قاتل
مسیحاؤں کو جب آواز دی ہے
پلٹ کر آ گئے ہر بار قاتل
ہمیشہ سے ہلاک اک دوسرے کے
مرا سر اور تری تلوار قاتل
تری آنکھوں کو جاناں کیا ہوا ہے
کبھی دیکھے نہ تھے بیمار قاتل
وہاں کیا داد خواہی کیا گواہی
جہاں ہوں منصفوں کے یار قاتل
فراز اس دشمن جاں سے گلہ کیا
ہمیشہ سے رہے دلدار قاتل
احمد فراز