عرفانؔ کے شعر کی اندرونی اور بیرونی ساخت از احمد جاویدؔ

جدید زندگی اپنی گرہ میں اگر تخلیقی اعتبار سے کوئی قابلِ قدر چیز رکھتی ہے تو وہ احساس کی complexityہے جس میں اتنی طاقت بہرحال ہے کہ ذہن کو ان حقائق سے مانوس رکھتی ہے جو اس کی حدودِ رسائی سے بالکل باہر چلے گئے ہیں۔ مجھے جدید شاعروں سے ایک مستقل شکایت یہ ہے کہ ان لوگوں کا طرزِ احساس انسانی نہیں، یعنی اس میں معنی پن غائب ہے۔ عرفانؔ ستار کے ہاں کہیں کہیں مہارت کی کمی تو نظر آتی ہے لیکن طرزِ احساس کی سطح پر وہ بعض ایسی خصوصیات رکھتے ہیں جو کسی نہایت اچھے شاعر کے لیے بھی موجبِ فخر ہو سکتی ہے۔ ان کی غزل میں محسوسات کی حسّی بناوٹ اور معنوی ساخت جس طرح یکجا ہو کر اظہار پاتی ہے، نئے غزل گو اسے تصور کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کے احساس کا contentتجربی سے زیادہ ذہنی ہے اور ذہنی سے زیادہ تجربی۔ یہی ان کی غزل کا بنیادی جوہر ہے۔ مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص قریب قریب ہر احساس یعنی خوشی غم وغیرہ کو کیفیت میں بھی نیا بنا دیتا ہے اور معنویت میں بھی۔ ان کے ہاں کوئی احساس متعین، ٹھوس اور سطحی نہیں ہے، اور نہ وہ کوئی طے شدہ اور یک رُخا مطلب رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف ان کا اُسلوب بالکل وہی ہے جوpolicy matterپر بیان دینے والوں کا ہوتا ہے۔ صاف، دو ٹوک اور پتھریلا۔ ان دو متضاد انتہائوں کو اکٹھا کر لینا، ظاہر ہے خاصی تعجب انگیز بات ہے۔ ٹھوس اسلوب اور سیّال کیفیت اور معنویت۔ یہ ہے عرفان کے شعر کی اندرونی اور بیرونی ساخت۔

عرفان ستار بنیادی طور پر شدّتِ احساس کے شاعر ہیں۔ احساس کی شدّت اگر ذہن کی شمولیت سے عاری ہو تو شعر میں کم از کم دو چیزیں داخل نہیں ہو سکتیں۔ ایک لفظ کے بیشتر امکانات کو برتنے کا سلیقہ اور دوسرے تخیل۔ عرفان ستار کی غزل میں یہ دونوں چیزیں تمام و کمال موجود ہیں۔

احمد جاویدؔ

تبصرہ کریں