عرفان ستار ۔ غزل نمبر 71
ملے گا کیا تجھے تازہ یہ سلسلہ کر کے
ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے
ہمیں بھی روز جگاتی تھی آ کے ایک مہک
چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے
سخن میں تیرے تغافل سے آ گیا یہ ہنر
ذرا سا غم بھی سناتے ہیں سانحہ کر کے
اُداس تھے سو ترے در پہ آ کے بیٹھ گئے
فقیر ہیں سو چلے جائیں گے صدا کر کے
ابھی ہوئی ہے پلک سے پلک ذرا مانوس
ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر کے
عجب نہیں کہ کوئی بات مجھ میں ہو میری
کبھی تو دیکھ مجھے خود سے تُو جدا کر کے
عرفان ستار