پروین شاکر ۔ غزل نمبر 113
گونگے لبوں پہ حرفِ تمنا کیا مجھے
کس کو چشم شب میں ستارا کیا مجھے
زخمِ ہُنر کو سمجھے ہُوئے گُلِ ہنر
کس شہرِ ناسپاس میں پیدا کیا مجھے
جب حرف ناشناس یہاں لفظ فہم میں
کیوں ذوقِ شعر دے کے تماشا کیا مجھے
خوشبو ہے، چاندنی ہے،لبِ جُو ہے اور میں
کس بے پناہ رات میں تنہا کیا مجھے
دی تشنگی خدانے تو چشمے بھی دے دیے
سینے میں دشت،آنکھوں میں دریا کیا مجھے
مَیں یوں سنبھل گئی کہ تری بے وفائی نے
بے اعتباریوں سے شناسا کیا مجھے
وہ اپنی ایک ذات میں کُل کائنات تھا
دُنیا کے ہر فریب سے مِلوا دیا مجھے
اوروں کے ساتھ میرا تعارف بھی جب ہُوا
ہاتھوں میں ہاتھ لے کر وہ سوچا کیا مجھے
بیتے دنوں کا عکس نہ آئندہ کا خیال
بس خالی خالی آنکھوں سے دیکھا کیا مجھے
پروین شاکر