قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 110
وفائے وعدہ میں اچھا تمھاری بات سہی
نہیں دن کو جو فرصت تمھیں تو رات سہی
مگر ہمیں تو نگاہِ عتاب سے ہی نواز
عدہ کی سمت تری چشمِ التفات سہی
جو چاہو کہہ لو کہ مجبورِ عشق ہوں ورنہ
تمھیں بتاؤ کہ کس کی بات سہی
تو پھر بتاؤ کہ یہ آنکھوں میں سر خیال کیوں ہیں
غلط وہ محفل دشمن کی واردات سہی
رقیب چھائے ہوئے ہیں مثال ابرِ ان پر
قمر نہ آئیں گے وہ لاکھ چاند رات سہی
قمر جلالوی