پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 106
دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں
پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں
وہ جو تھا اپنا گمان آج بہت یاد آیا
تھی عجب راحتِ آزادئ ایجاد اس میں
ایک ہی تو وہ مہم تھی جسے سر کرنا تھا
مجھے حاصل نہ کسی کی ہوئی امداد اس میں
ایک خوشبو میں رہی مجھ کو تلاشِ خدوخال
رنگ فصیلیں مری یارو ہوئیں برباد اس میں
باغِ جاں سے تُو کبھی رات گئے گزرا ہے
کہتے ہیں رات میں کھیلیں ہیں پری زاد اس میں
دل محلے میں عجب ایک قفس تھا یارو
صید کو چھوڑ کے رہنے لگا صیاد اس میں
جون ایلیا

تبصرہ کریں