یہ میں ہوں!
اور یہ میں ہوں!
یہ دو میں ایک سیمِنیلگوں کے ساتھ آویزاں
ہیں شرق وغرب کے مانند،
لیکن مِل نہیں سکتے!
صدائیں رنگ سے نا آشنا
اک تار ان کے درمیاںحائل!
مگر وہ ہاتھ جن کا بخت،
مشرق کے جواں سورج کی تابانی
کبھی اِن نرم و نازک، برف پروردہ حسیں باہوں
کو چھو جائیں،
محبّت کی کمیںگاہوں کو چھو جائیں
یہ ناممکن! یہ ناممکن!
کہ ظلمِ رنگ کی دیوار ان کے درمیاں حائل!
یہ میںہوں!
انا کے زخم خوں آلودہ، ہر پردے میں،
ہر پوشاک میںعریاں،
یہ زخم ایسے ہیںجو اشکِ ریا سے سِل نہیں سکتے
کسی سوچے ہوئے حرفِ وفا سے سِل نہیںسکتے!
ن م راشد