دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 4
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسود تھا
آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ
مرزا اسد اللہ خان غالب