پس منظر

کس کی یاد چمک اٹھی ہے، دھندلے خاکے ہوئے اُجاگر

یوں ہی چند پرانی قبریں کھود رہا ہوں تنہا بیٹھا

کہیں کسی کا ماس نہ ہڈی، کہیں کسی کا رُوپ نہ چھایا

کچھ کتبوں پر دھندلے دھندلے نام کھدے ہیں میں جیون بھر

ان کتبوں، ان قبروں ہی کو اپنے من کا بھید بنا کر

مستقبل اور حال کو چھوڑے، دُکھ سکھ سب میں لیے پھرا ہوں!

ماضی کی گھنگھور گھٹا میں چپکا بیٹھا سوچ رہا ہوں

کس کی یاد چمک اُٹھی ہے دھندلے خاکے ہوئے اُجاگر؟

بیٹھا قبریں کھود رہا ہوں، ہوک سی بن کر ایک اِک مورت

درد سا بن کر ایک اِک سایا، جاگ رہے ہیں، دور کہیں سے

آوازیں سی کچھ آتی ہیں، گزرے تھے اِک بار یہیں سے

اختر الایمان