چند لمحے جو ترے ساتھ گزارے میں نے
ان کی یاد ان کا تصور ابھی رخشندہ نہیں
تو ابھی چھائی نہیں مجھ پر، مری دنیا پر
خود ترا حسن مرے ذہن میں تابندہ نہیں
کیا خبر کل مجھے یکسر ہی بدل ڈالے تو
یوں ترا حسن، مرا شوق بھی پایندہ نہیں
دیکھ میں ہوش میں ہوں اے غم گیتی کے شعور
تیرے ملنے کی تمنّا لیے آنکھوں میں کہاں
اپنے ظلمت کدے اے جان، سنوارے میں نے
غم چشیدہ مرے جذبات میں جذبہ پنہاں
اب کہاں پہلے گزاریں کئی راتیں میں نے
جن میں افسانے کہے چاند سے افسانے سنے
اب کہاں، پہلے برس گزرے، کسی مہوش کی
چاہ میں کتنے ہی ہنگام سحر گیت بنے
اب مگر تاب کہاں مجھ میں یہ انگور کی بیل
خون چاہے گی رگ و پے میں سما جائے گی
اختر الایمان