یہ جھکی جھکی آنکھیں
یہ رُکا رُکا لہجہ
لب پہ بار بار آ کے
ٹوٹتا ہُوا فقرہ
گرد میں اٹی پلکیں
دُھوپ سے تپا چہرہ
سر جُھکائے آیا ہے
ایک عمر کا بُھولا
دل ہزار کہتا ہے
ہاتھ تھام لُوں اس کا
چُوم لُوں یہ پیشانی
لَوٹنے نہ دُوں تنہا
کوئی دل سے کہتا ہے
سارے حرف جُھوٹے ہیں
اعتبار مت کرنا!
اعتبار مت کرنا
پروین شاکر