کُھلے بھی تو زنجیر در کی رعایت کے ساتھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 45
سخی ہے وہ لیکن ذرا سی کفایت کے ساتھ
کُھلے بھی تو زنجیر در کی رعایت کے ساتھ
چلوں سیرِ فردا پہ نکلوں کہ شاعر ہوں میں
بندھا کیوں رہوں اپنی کہنہ روایت کے ساتھ
یہی ہے کہ اثبات نفی سے مشروط ہے
نبھے دوستی بھی عُدو کی حمایت کے ساتھ
مجھے تو یہ تکرار وعدہ بھی اچھی لگے
یہ دیکھو! میں پھر آ گیا ہوں شکایت کے ساتھ
یہ تاوان انبوہ لیتا تو ہے فرد سے
کہ چلنا پڑے دوسروں کی ہدایت کے ساتھ
آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں