ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 24
آخرِکار سمیٹیں گے اسے اہلِ نبرد
ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد
ایک ہی جور پہ انداز دگر برپا ہے
مژدہ کیا لائے کہیں سے بھی ترا شہر نورد
موسموں کا یہ بدلنا بھی مقدر ٹھہرا
زرد سے سبز کبھی اور کبھی سبز سے زرد
جان دینے سے بھی آگے کا کوئی معرکہ ہو
طے کرے جو میرے اس مثبت و منفی کی نبرد
آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں