آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 26
ایسے طلوع قطرہ خون کنج لب سے ہو
باقی رہے نہ قرضِ خموشی زبان پر
کیوں خود پہ رحم کھا کے کہیں اُنگلیوں سے تم
آسودگی کی گرہیں لگاتے ہو جان پر
اے شاہِ صوت! مژدۂ فردا نما سنا
خوش فہمیوں کی آیتیں نازل ہوں کان پر
ہر دم زمینِ عمر سے بے دخلیوں کا خوف
جیسے یہ کشتِ جبر ملی ہو لگان پر
کیا جانئے کہ علم کے کس مرحلے میں ہوں
کیوں جھوٹ کو فروغ دوں سچ کے گمان پر
آفتاب اقبال شمیم