میری قیام گاہ کی سمتِ جنوبِ مغربی
جس میں کہ خار و خس کی ہے چھوٹی سی ایک جھونپڑی
اس کے درِ شکستہ پر پردہ ہے اک پھٹا ہوا
چھید سے جس کے جھانک کر دیکھ رہی ہے (آمنہ)
گائے کا دودھ دوہ کر رکھ رہی ہے وہ آگ پر
میرے قدم کی چاپ پر آ گئی در پہ بھا گ کر
سہمی ہوئی کھڑی ہے وہ ساحرۂ لطیف جاں
سانس سے اس کی لرزشیں پردۂ در پہ ہیں عیاں
دیکھ رہی ہے وہ مجھے ہنستی ہوئی نگاہ سے
ہستی ہوئی نگاہ کی تابشِ بےپناہ سے
اُف یہ نگہ فسانۂ شوقِ نہاں لیے ہوئے
سادہ سے ایک پریم کی سادگیاں لیے ہوئے
آہ اسی نگاہ کے جام کو پی رہا ہوں میں
آج اک اورعالمِ نور میں جی رہا ہوں میں
عالم نور ہاں یہی خطۂ کیفِ سرمدی
میری قیام گاہ کی سمتِ جنوبِ مغربی
مجید امجد