موجودگی

پھر آج دل میں کوئی موجِ غم مچلتی ہے

شبِ خیال میں قندیلِ عود جلتی ہے

پھر اک ادائے حجاب

رسومِ دہر کی زنجیر اتار آئی ہے

بہار آئی ہے

رسومِ دہر کی اس آتشیں فصیل کے پار

گداز سینوں کی مخمور دھڑکنوں کے دیار

محبتوں کے سراب

کہ جن کو تیر کے آتی ہے پائلوں کی جھنک

مرے دکھے دل تک!

ہر اک طرف ہوسِ دید کے نیستاں میں

کسی حسین سی موجودگی کی خوشبوئیں

خمارِ قرب کے خواب

ہزار غم کہ جنھیں کیفِ شوق کی نیندیں

پیامِ تسکیں دیں

مجید امجد

تبصرہ کریں