اس ایک بات سے انکار ہو نہیں سکتا
کہ ہم نے اپنے لہو سے، بساطِ عالم پر
لکیر کھینچی ہے جس سلطنت کی، اس کا وجود
ہے ایشیا کے شبستاں میں صبحِ نو کی نمود!
یہ سب بجا ہے کہ ہم جن جگر کے ٹکڑوں کو
بہ شہر و قریہ، بہ دشت و چمن، بہ کوچہ و بام
بھڑکتی آگ میں بہتے لہو میں چھوڑ آئے
وہ روحیں جن کے سیہ پوش، ماتمی سائے
ہمارے ہنستے ہوئے پیکروں سے لپٹے ہیں
وہ قافلے کہ جنھیں مہلتِ سفر نہ ملی
انہی کے سڑتے ہوئے لوتھڑوں کی ہونکتی بو
انہی کی ڈوبتی فریادیں، چیختے آنسو
ہمارے محلوں کے نغمے، ہمارے باغوں کے پھول!
مگر یہ پھول، یہ نغمے، یہ نکہتوں کے ہجوم
سحر سحر کو اگر مشکبار کر نہ سکے
نفَس نفَس کو امینِ بہار کر نہ سکے
وہ جن کے واسطے یہ گلستاں سجایا گیا
گر اس طرح تہی داماں، تہی سَبَد ہی رہے
تو سوچ لو کہ یہ نازک، لطیف پرتوِ نور
یہ لڑکھڑاتی ہواؤں میں ٹھہرا ٹھہرا غرور
ہزار ساعتِ بےبرگ کے بیاباں میں
یہ اک امنگوں بھری سانس!
اس کا مستقبل؟
ہماری زندگیوں سے اک اک تڑپ لے کر
پروئے ہیں جو فلک نے، بہ سلکِ شام و سحر
گلوئے غم کے لیے، چہرۂ طرب کے لیے
سدا بہار ارادوں کے ہار
ان کا مآل؟
یہی سوال ہے رازِ غمِ زمان و زمیں!
حضور! ان کا جبیں پر شکن جواب نہیں
اس موضوع کی شاعری میں بیشتر شکوہ ہوتا ہے لیکن مجید امجد کی یہ نظم اس سے خالی ہے۔
پسند کریںپسند کریں