قیدی

سخت زنجیریں ہیں قیدی، سخت زنجیریں ہیں یہ

ان کو ڈھالا ہے جہنم کی دہکتی آگ میں

ان کی کڑیاں موت کے پھنکارتے ناگوں کے بیچ

ان کی لڑیاں زندگی کی الجھنوں کے سلسلے

ان کی گیرائی کے آگے تیری تدبیریں ہیں یہ

سخت زنجیریں ہیں قیدی، سخت زنجیریں ہیں یہ

بیڑیاں، قیدی، ترے پاؤں میں ہیں تاگے نہیں

دیکھ یاپی! اپنے سر پر تیز سنگینوں کی چھت

چارسو لوہے کی سیخوں کی فصیلِ بیکراں

تو ادھر بےدست و پا، بے حس و حرکت، بے سکت

اور ادھر اس سوچ میں ہیں تیرے ظالم پاسباں

دُکھ کی کالی کوٹھڑی سے تو کہیں بھاگے نہیں

بیڑیاں، قیدی، ترے پاؤں میں ہیں تاگے نہیں

مجید امجد

تبصرہ کریں