رازِ گراں بہا

نہ رہنما سے تعلق نہ راستہ معلوم

ترے جنونِ تجسس کا منتہا معلوم

نہ آرزوئے ترقی نہ جستجوئے کمال

تری حیات کا مقصد ہے کیا، خدا معلوم

یہی ہے حال اگر پستیِ عزائم کا

مآلِ خواہشِ تکمیلِ ارتقا معلوم

نہاں ہے محنتِ پیہم میں راحتِ جاوید

نہیں ہے تجھ کو یہ رازِ گراں بہا معلوم

تو اجتماعِ مصائب سے ڈر رہا ہے کیوں

نہیں تحمّلِ آفات کا صلا معلوم؟

حریمِ قدس کی رنگینیوں کا مرکز ہے

وہ دل کہ جس کو نہیں خوفِ ماسوا معلوم

مجید امجد

تبصرہ کریں