کوئی تو مجھ کو بتائے یہ راہگیر ہے کون
حسین انکھڑیوں میں حسنِ شش جہات لیے
دمِ سحر ہے سرِ رہگزار محوِ سفر
سیاہ گیسوؤں میں بےکسی کی رات لیے
چلی ہے کون سی دنیائے بےنشاں کی طرف
ہزار گردشِ افلاک سات سات لیے
جبینِ ناز پہ دردِ مسافری کا ہجوم
پلک پلک پہ غبارِ رہِ حیات لیے
اداس چہرے پہ اک التجا کی گویائی
خموش لب پہ کوئی بےصدا سی بات لیے
خزاں کی سلطنتوں میں ہے ایک پھول رواں
ہر ایک خار سے امیدِ التفات لیے
لگی ہے اس کو لگن جانے کس ٹھکانے کی
بھٹک گئی نہ ہو ٹھوکر کوئی زمانے کی
مجید امجد