کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا!
رات کو بےخبری میں جو مچل جاتا میں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول!
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشۂ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہرگز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربتِ رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بُنِ گوش میں بُندا ہوتا!
مجید امجد
Very nice very lovely
پسند کریںپسند کریں
وصی شاہ نے اسی نظم کا چربہ بنایا جس پر ایک مُشاعرے میں انور شعور نے تاریخ ساز جُملہ کہا “آج کے شعرا شاعر کم اور سُنار زیادہ ہیں ایک بُندے کا کنگن بنا ڈالا
پسند کریںپسند کریں