یہ کاروبارِ محبت اسی کے بس کا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 319
سپردگی میں بھی انداز دسترس کا ہے
یہ کاروبارِ محبت اسی کے بس کا ہے
بھلی لگے گی نہ جانے کدھر لہو کی لکیر
کہ سارا کھیل ہی منظر میں پیش و پس کا ہے
یہاں کسی کا وفادار کیوں رہے کوئی
کہ جو وفا کا صلہ ہے وہی ہوس کا ہے
میں جانتا ہوں کہ تو ایک شعلہ ہے‘ لیکن
بدن میں ڈھیر بہت دن سے خار و خس کا ہے
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں