ہمارے جسم جدا ہیں کہ جان بیچ میں ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 332
اَبھی تو سب سے بڑا اِمتحان بیچ میں ہے
ہمارے جسم جدا ہیں کہ جان بیچ میں ہے
زمین سخت سہی، آسمان گرم سہی
وہ مطمئن ہے کہ اُس کی اُڑان بیچ میں ہے
یہ شہر پھونکنے والے کسی کے دوست نہیں
کسے خیال کہ تیرا مکان بیچ میں ہے
جدھر بھی جاؤ وہی فاصلوں کی دیواریں
کوئی زمیں ہو وہی آسمان بیچ میں ہے
رُتوں کے جسم سے کیسے لپٹ سکوں عرفانؔ
مرا بدن ہے کہ اِک سائبان بیچ میں ہے
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں