عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 327
ساعتِ وصل بھی عمر گزراں سے کم ہے
کیا سمندر ہے کہ اک موج رواں سے کم ہے
ہے بہت کچھ مری تعبیر کی دُنیا تجھ میں
پھر بھی کچھ ہے کہ جو خوابوں کے جہاں سے کم ہے
جان کیا دیجئے اس دولتِ دُنیا کے لیے
ہم فقیروں کو جو اک پارۂ ناں سے کم ہے
وادیِ ہو میں پہنچتا ہوں بیک جستِ خیال
دشتِ افلاک مری وحشتِ جاں سے کم ہے
میں وہ بسمل ہوں کہ بچنا نہیں اچھا جس کا
ویسے خطرہ ہنرِ چارہ گراں سے کم ہے
عرفان صدیقی