عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 298
فقیر ہوں دلِ تکیہ نشیں ملا ہے مجھے
میاں کا صدقہِ تاج و نگیں ملا ہے مجھے
زباں کو خوش نہیں آتا کسی کا آب و نمک
عجب تبرکِ نان جویں ملا ہے مجھے
میں بوریا بھی اسی خاک پر کیا تھا بساط
سو یہ خریطۂ زر بھی یہیں ملا ہے مجھے
چراغِ گنبد و محراب بجھ گئے ہیں تمام
تو اک ستارۂ داغِ جبیں ملا ہے مجھے
یہ سر کہاں وہ کلاہِ چہار ترک کہاں
ابھی اجازۂ بیعت نہیں ملا ہے مجھے
عرفان صدیقی