عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 299
کوئی میرے دل حیراں کا سراپا دیکھے
جیسے بچہ کسی میلے میں تماشا دیکھے
باندھ کر جانے کہاں لے گئی قسمت کی کمند
وہ چلا تھا کہ ذرا وسعت صحرا دیکھے
یہ تو اک بھولا ہوا چہرہ ہے، جب یاد آجائے
شام دیکھے نہ یہ مہتاب سویرا دیکھے
میں اب ان چھوٹی سی خوشیوں کے سوا کیا چاہوں
پیاس بوندوں سے نہ بجھ پائے تو دریا دیکھے
عرفان صدیقی