عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 309
کام اس شکوۂ تنہائی سے کیا چلتا ہے
تو اکیلا ہے کہ دُنیا سے جدا چلتا ہے
رنگ آسان ہیں پہچان لیے جاتے ہیں
دیکھنے سے کہیں خوشبو کا پتا چلتا ہے
لہر اُٹّھے کوئی دل میں تو کنارے لگ جائیں
یہ سمندر ہے یہاں حکمِ ہوا چلتا ہے
پاؤں میں خاک کی زنجیر پڑی ہے کب سے
ہم کہاں چلتے ہیں نقشِ کفِ پا چلتا ہے
شہر در شہر دواں ہے مری فریاد کی گونج
مجھ سے آگے مرا رہوارِ صدا چلتا ہے
اس خرابے میں بھی ہوجائے گی دُنیا آباد
ایک معمورہ پسِ سیلِ بلا چلتا ہے
عرفان صدیقی