عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 254
ہر سمت آرزوؤں کے لاشے پڑے ہوئے
کس دَشت میں ہیں شوق کے گھوڑے اڑے ہوئے
معصوم چہرہ، تیز نگاہوں کی زد میں ہے
نیزے ہیں نرم کھیت کے دِل میں گڑے ہوئے
ہم بیچنے کو لائے ہیں ماضی کے پیرہن
کہنہ روایتوں کے نگینے جڑے ہوئے
اپنے لیے تو ہار ہے کوئی، نہ جیت ہے
ہم سب ہیں دُوسروں کی لڑائی لڑے ہوئے
اُن کو خبر نہیں کہ ہے پانی کا کیا مزاج
جو پیڑ ہیں ندی کے کنارے کھڑے ہوئے
عرفان صدیقی