عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 246
اب ضیابار وہ مہتاب ادھر بھی ہو جائے
ورنہ ممکن ہے مری رات بسر بھی ہو جائے
کسی وحشت نے بنایا ہے ہمیں خانہ بدوش
ہم جو صحرا ہی میں رہ جائیں تو گھر بھی ہو جائے
ریت میں پھول کھلیں، سنگ سے چشمہ پھوٹے
زندگی اس کا اشارہ ہے جدھر بھی ہو جائے
یہ کرشمہ کبھی ہوتے نہیں دیکھا ہم نے
سر بھی شانوں پہ رہے معرکہ سر بھی ہو جائے
MERGED پاؤں پتھر ہوں تو کیا وحشت سرکا حاصل
فرض کر لیجیے دیوار میں در بھی ہو جائے
عرفان صدیقی