مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 260
خوشبو کی طرح گرم سفر ہم نہیں ہوتے
مٹی ہیں تو پھر شہر بدر ہم نہیں ہوتے
پل بھر کا تماشا ہے سو دیکھو ہمیں اس بار
ایک آئنے میں بار دگر ہم نہیں ہوتے
کیا ابر گریزاں سے شکایت ہو کہ دل میں
صحرا ہی کچھ ایسا ہے کہ تر ہم نہیں ہوتے
لے جاؤ تم اپنی مہ و انجم کی سواری
ہر شخص کے ہمراہ سفر ہم نہیں ہوتے
مدت سے فقیروں کا یہ رشتہ ہے فلک سے
جس سمت وہ ہوتا ہے اُدھر ہم نہیں ہوتے
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں