تو دلبرانِ غزل خط و خال سے بھی گئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 257
ہم اہلِ شعر جو حسنِ خیال سے بھی گئے
تو دلبرانِ غزل خط و خال سے بھی گئے
بچھڑ گئے کہیں رَستے میں ہمسفر موسم
گئے دِنوں کے تعاقب میں حال سے بھی گئے
وہ کہہ گیا ہے پھر آئیں گے ہم، اُداس نہ ہو
تو ہم خوشی سے بھی چھوُٹے، ملال سے بھی گئے
وہاں بھی اِس کے سوا اور کچھ نصیب نہ تھا
ختن سے نکلے تو چشمِ غزال سے بھی گئے
وہ ہونٹ پندگروں کو بھی کر گئے خاموش
غریب مشغلۂ قیل و قال سے بھی گئے
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں