عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 243
اک دیا شام خموشاں میں جلا بھی آئے
اور اک شمع تہہ خاک دبا بھی آئے
اب کے اُس در سے نہ نکلا کسی اُمید کا چاند
شب کے سناٹے میں آواز لگا بھی آئے
یہ سفر کتنا اکیلا ہے کہ عادت تو نہ تھی
دُور تک ساتھ کوئی حرف دعا بھی آئے
اُس کی پرچھائیں کا دھوکا نہیں ہونے والا
اب مری سمت اگر ظل ہما بھی آئے
غم دنیا میں غم جاں کی حقیقت کیا ہے
دوسرے چپ ہوں تو کچھ اپنی صدا بھی آئے
تو بہت دیر میں دیوانہ بنانے نکلی
ہم تو اے باؤلی رُت خاک اُڑا بھی آئے
ماں کے انتقال پر
عرفان صدیقی