کبھی دن بیتیں بیراگ بھرے کبھی رت آئے انوراگ بھری

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 218
کوئی چٹّھی لکھو رنگ بھری کوئی مٹھی کھولو پھاگ بھری
کبھی دن بیتیں بیراگ بھرے کبھی رت آئے انوراگ بھری
جہاں خاک بچھونا رات ملے مجھے چاند کی صورت ساتھ ملے
وہی دکھیارن وہی بنجارن وہی روپ متی وہی بھاگ بھری
پل بھر کو اگر میں سوجاؤں تو سارا زہر کا ہوجاؤں
ترا کالا جنگل ناگ بھرا مری جلتی آنکھیں جاگ بھری
سنو اپنا اپنا کام کریں سُرتال پہ کیوں الزام دھریں
میاں اپنی اپنی بانسریا کوئی راگ بھری کوئی آگ بھری
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں