عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 225
بساط رقص جو گردِ سفر بچھانے لگی
وہی جرس کی صدا پھر کہیں سے آنے لگی
عجیب موج ہے، دشمن کہوں کہ دوست کہوں
زمین کاٹ رہی تھی کہ گل کھلانے لگی
سدا کہیں کوئی بے آشنا نہیں رہتا
مجھے ہوائے مسافت گلے لگانے لگی
میں بے کنار سمجھنے کو تھا سمندر کو
کہ ایک شاخ سرِ آب جگمگانے لگی
دُعائے شامِ دل آزردگاں بھی کیا شے ہے
چراغ جلنے لگے‘ رات مسکرانے لگی
ابھی کھلا بھی نہ تھا رختِ شوق دلّی میں
کہ پھر ہمیں کششِ لکھنؤ بلانے لگی
عرفان صدیقی