عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 236
ہر جگہ فتنۂ محشر کی علامت ہے وہی
لکھنؤ میں بھی بتوں کا قد و قامت ہے وہی
بات کرنے لگے سناٹے تو معلوم ہُوا
اَب بھی خاموش زَبانوں میں کرامت ہے وہی
کون ہم خانہ خرابوں کو کرے گا برباد
جو اِس آشوب میں غارت ہے سلامت ہے وہی
آستیں پر کوئی دھبّہ تو نہیں ہے، لیکن
اُس کی آنکھوں میں بہرحال ندامت ہے وہی
کم سے کم ایک رَوایت تو اَبھی زِندہ ہے
سر وہی ہوں کہ نہ ہوں، سنگِ ملامت ہے وہی
موجِ خوں ہو کہ ترے شہر کی دِلدار ہَوا
یار، جو سر سے گزر جائے قیامت ہے وہی
عرفان صدیقی