ستارہ جو کو فرشتے کہیں نظر نہیں آئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 240
خلاء میں کیا نظر آتے، زمین پر نہیں آئے
ستارہ جو کو فرشتے کہیں نظر نہیں آئے
نشاں نہ تھا کوئی ڈوبی ہوئی زمینوں کا
سو ہم جہاز پہ اُڑتے رہے اُتر نہیں آئے
جہان نو تھا کہ مقتل ہمیں نہیں معلوم
جو اس گلی سے گئے تھے زیادہ تر نہیں آئے
اُداس شام اکیلی کھڑی ہے چوکھٹ پر
بہت سے صبح کے نکلے ہوئے بھی گھر نہیں آئے
یہ فصل گل جو بہت مہربان ہے اس بار
عجب نہیں ہے کہ جائے تو لوٹ کر نہیں آئے
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں