عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 202
مری طرف تری موج نوا چلی ہی نہیں
ہوا کبھی سرِ دشتِ بلا چلی ہی نہیں
تمام فیصلے بس ایک شخص کرتا تھا
وہاں یہ بحثِ خطا و سزا چلی ہی نہیں
دِل و زَباں میں کبھی جیسے رابطہ ہی نہ تھا
اُٹھے بھی ہاتھ تو رسمِ دُعا چلی ہی نہیں
یہ مت سمجھ کہ ترے قتل کا خیال نہ تھا
نکل چکی تھی مگر بے وفا چلی ہی نہیں
میں چاہتا تھا کہ کچھ سرکشی کی داد ملے
تو اَب کے شہر میں تیغِ جفا چلی ہی نہیں
بہت خراب تھی شعلہ گروں کی قسمت بھی
مکان اور بھی جلتے، ہوا چلی ہی نہیں
عرفان صدیقی