مجھ کو لے جائے گی، یہ موجِ وصال اور کہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 204
میرا جسم اور کہیں، میرا خیال اور کہیں
مجھ کو لے جائے گی، یہ موجِ وصال اور کہیں
زیرِ افلاک ستاروں کا سفر جاری ہے
اب کے نکلیں گے ہم اے شامِ زوال اور کہیں
دور تک آئنے ویران ہیں آنکھوں کی طرح
ڈھونڈنے جائیے اپنے مہ و سال اور کہیں
کچھ اسی دشت پہ موقوف نہیں تیرِ ستم
زندگی ہے تو ہدف ہوں گے غزال اور کہیں
اس سے اک حرفِ دل آزار کا رشتہ ہی سہی
یوں بھی ہوتی ہے کہاں پرسشِ حال اور کہیں
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں