کچھ اور بات کرو سب کے حال دوسرے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 170
کہاں کے شعر و سخن ماہ و سال دوسرے ہیں
کچھ اور بات کرو سب کے حال دوسرے ہیں
چراغ بجھ گئے دل کی لویں بچائے رکھو
کہ اب کے موج ہوا کے خیال دوسرے ہیں
کہاں سے آئے ہو جنس وفا خریدنے کو
میاں، یہاں کی دُکانوں پہ مال دُوسرے ہیں
مری غزل کی زمیں ہے بدن سے آگے بھی
اسیر حلقۂ ہجر و وصال دُوسرے ہیں
بچھڑنے ملنے کا قصہ تو چلتا رہتا ہے
نہیں نہیں مرے عیش و ملال دوسرے ہیں
یہ میرا عکس دروں ہے یقیں نہیں آتا
اس آئینے میں مرے خط و خال دُوسرے ہیں
تمہارے ساتھ ہے دل کا مکالمہ کچھ اور
کہ دوسروں سے ہمارے سوال دوسرے ہیں
ستم سوا ہو تو اپنی طرف ہی لوٹتا ہے
ابھی تو خیر یہاں پائمال دوسرے ہیں
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں